آڈیو لیکس کمیشن: سوال یہ ہے کہ یہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
دلائل مکمل
پاکستان کے اٹارنی جنرل منصور حیات نے چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ کو بتایا کہ ’کالز کیسے ریکارڈ کی گئیں، کمیشن کے زریعے تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے گا۔‘ ان کے مطابق ابھی تو یہ معاملہ انتہائی ابتدا کی سطح پر ہے۔ وفاقی حکومت کے مطابق یہ آڈیوز مبینہ آڈیوز ہیں۔ وفاقی حکومت کا یہی بیان دیکھا جانا چاہیے۔ کابینہ کے علاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کا بیان نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ اگر وزیر خزانہ کچھ بیان دے تو وہ بھی حکومت کا نہ سمجھا جائے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’کوئی معاملہ اگر سپریم کورٹ کے تمام ججز سے متعلق نکل آئے پھر یہ نظریہ ضرورت پر عمل ہوسکتا ہے۔ اگر تمام ججز پر سوال ہو پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب کسی نے تو سننا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بینظیر کیس میں بینچ پر اعتراض نہیں ہوا۔ کیا اس کیس میں ججز نے ٹھیک فیصلہ نہیں کیا جن کی کالز ٹیپ ہوئیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’وفاقی حکومت کا کیس تعصب کا نہیں مفادات کے ٹکراو کا ہے۔‘ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا یہ اعتراض صرف جوڈیشل کارروائی پر بنتا ہے یا انتظامی امور کی انجام دہی پر بھی ہے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بینظیر بھٹو کیس سننے والے سات میں سے چار ججز کے فون ٹیپنگ کی گئی تھی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اس کیس میں صدر کے اختیارات کا سوال تھا۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’کوئی بھی شخص اپنے کاذ کا خود جج نہیں ہوسکتا۔ ہماری اس سارے معاملہ پر کوئی بدنیتی نہیں ہے اور بینچ تبدیل ہونے سے کمیشن کے خلاف عدالت آئے درخواست گزاروں کا حق متاثر نہیں ہوگا۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ استدعا ہے کہ بینچ تبدیلی کی درخواست کو زیر غور لائیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ کا اعتراض دو اور ججز پر بھی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ہماری درخواست کا متن آپ کے سامنے ہے اس کا جائزہ لے لیں۔‘ بینچ تبدیلی کی حکومتی درخواست پر اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔